یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے : جون ایلیا

یارو نگہ یار کو ، یاروں سے گلہ ہے
خونیں جگروں ، سینہ فگاروں سے گلہ ہے

جاں سے بھی گئے ، بات بھی جاناں کی نہ سمجھی
جاناں کو بہت عشق کے ماروں سے گلہ ہے

اب وصل ہو یا ہجر ، نہ اب تک بسر آیا
اک لمØ*ہ ØŒ جسے لمØ*ہ شماروں سے گلہ ہے

اڑتی ہے ہر اک شور کے سینے سے خموشی
صØ*راؤں پر شور دیاروں سے گلہ ہے

بیکار Ú©ÛŒ اک کارگزاری Ú©Û’ Ø*سابوں
بیکار ہوں اور کار گزاروں سے گلہ ہے

بے فصل اشاروں سے ہوا خونِ جنوں کا
ان شوخ نگاہوں کے اشاروں سے گلہ ہے